ریت مٹھی میں کبھی ٹھہری ہے
پیاس سے اس کو علاقہ کیا ہے
عمر کا کتنا بڑا حصہ گنوا بیٹھا میں
جانتے بوجھتے کردار ڈرامے کا بنا
اور اس رول کو سب کہتے ہیں
ہوشیاری سے نبھایا میں نے
ہنسنے کے جتنے مقام آئے ہنسا
بس مجھے رونے کی ساعت پہ خجل ہونا پڑا
جانے کیوں رونے کے ہر لمحے کو
ٹال دیتا ہوں کسی اگلی گھڑی پر
دل میں خوف و نفرت کو سجا لیتا ہوں
مجھ کو یہ دنیا بھلی لگتی ہے
بھیڑ میں اجنبی لگنے میں مزا آتا ہے
آشنا چہروں کے بدلے ہوئے تیور مجھ کو
حال سے ماضی میں لے جاتے ہیں
کہنیاں زخمی ہیں اور گھٹنوں پر
کچھ خراشوں کے نشاں
سوندھی مٹی کی مہک کھینچے لیے جاتی ہے
تتلیاں پھول ہوا چاندنی کنکر پتھر
سب مرے ساتھ میں ہیں
سانس بے خوفی سے لیتا ہوں میں
نظم
زندہ رہنے کا یہ احساس
شہریار