پل کے نیچے جھانک کے دیکھو آج ندی طوفانی ہے
بپھری لہریں جھاگ اڑاتی ہیں کیا زندہ پانی ہے
اور بھنور پل کے بے رنگ ستونوں سے ٹکراتے ہیں
جن پر بوجھ ہے اس پل کا وہ شانے ٹوٹے جاتے ہیں
وہ اک کبڑا پیڑ ندی پر یوں جھک آیا ہے جیسے
ایک کنارہ ہاتھ بڑھا کر دوسرے سے ملنا چاہے
دور اک میڈک چیخ رہا ہے، خطروں سے آزاد ہوں میں
اس سے بڑھ کر غارت گر طوفان نظر سے گزرے ہیں
اک پانی کا سانپ نہ جانے کب سے اس کی تاک میں ہے
وہ بھی جانتا ہے یہ راز کہ ملنا آخر خاک میں ہے
ایک قمیص چلی آتی ہے جانے کہاں سے بہتی ہوئی
جس میں ناخن گاڑ دیے ہیں اب اک آبی جھاڑی نے
اس کا مالک بچھڑ گیا ہے یہ بھی اس کے پاس چلی
اک بہتے دروازے پر اک بھیگی بلی بیٹھی ہے
جو آنے والے لمحوں کی بابت سوچتی جاتی ہے
سوچتے سوچتے اس کی آنکھیں ہو جائیں گی سحر زدہ
اور اس کے بالوں کا ریشم پانی میں مل جائے گا
لہر کی اک دیوار گری اور بلبلے دب کر ٹوٹ گئے
جن کی پھوٹتی آنکھوں سے کچھ خواب نکل کر بھاگ چلے
یہ خوابوں کے دیکھنے والے آخر کیوں نہیں سوچتے ہیں
سب افسانے جھوٹے ہیں، سب خواب بکھرنے والے ہیں
اس لافانی جھوٹ کے پیچھے سچ ہے اگر تو اتنا ہے
یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے پانی بہتا رہتا ہے
نظم
زندہ پانی سچا
ساقی فاروقی