جھٹپٹے کے شہر میں
بیگانگی کی لہر میں
معدوم ہوتی روشنی کے درمیاں
زیست کے پاؤں تلے آئے ہوئے
لوگ ہیں یا چیونٹیاں
تن بدن کی رحل پر
مہمل کتابیں زرد چہروں کی کھلیں
منظروں کی کھوجتی بینائیاں معذور ہیں
یاد رکھنے کی تمنا
بھولنے کی آرزو
حافظے کی بند مٹھی میں ٹھہرتا کچھ نہیں
ہر قدم خواب و خیال وصل کی لذت لیے
ذات کے نیلے سمندر میں کہیں
(ان جزیروں کی ہوا میں سانس لیتے جو مقدر میں نہیں)
ڈھونڈتے ہیں کشتیوں کا راستہ
ہر صبح کے اخبار میں
خود کلامی کی سڑک پر دور تک
(لڑکھڑاتے زرد پتوں کی طرح)
کھولتے ہیں کشمکش کی گٹھریاں
کھلتی نہیں
بھیگتے ہیں تیز بارش میں ندامت کی مگر
روح کی آلودگی دھلتی نہیں

نظم
زوال کے آئینے میں زندہ عکس
سعید احمد