کل تلک جو دھرتی پر
سر بلند پرچم تھا
آفتاب کی صورت
رنگ جس کے چہرے کا
دور تک چمکتا تھا
آج اس سے لپٹی ہیں
ٹڈیاں ہواؤں کی
سرخیوں کے شعلوں کو
لے رہی ہیں نرغے میں
بدلیاں فضاؤں کی
مارکسؔ جی کے پتلے پر
بیٹھا کالا کوا ایک
بیٹ کرنے والا ہے
پاس ہی میں نعرہ ایک
انقلاب زندہ باد
گونجتا ہے رہ رہ کر
نظم
زوال
غضنفر