اس قدر ہم سے گریزاں کیوں ہو
کچھ نہیں ہم ہیں فقط عکس خیال
ایک تصویر کا دھندلا سا نشاں
حرف و معنی کے پر اسرار تسلسل میں کہیں
ان کہی بات کا احساس زیاں
اجنبی شہر میں چلتے چلتے راستہ ہاتھ پکڑ لے تو رکو
جس طرح تیز ہوا آ کے دریچے پہ کبھی
دستکیں دیتی ہے چپ چاپ پلٹ جاتی ہے
اور گزر گاہ سماعت میں فقط گونجتے ہیں
اس کے قدموں کے نشاں
جو یقیں ہیں نہ گماں
کسی اک لمحۂ گزراں کی حقیقت کیا ہے
کار الفت بھی اگر کار اذیت ہے تو پھر
آخر اس کار اذیت کی ضرورت کیا ہے
نظم
ضرورت کیا ہے
شاہین مفتی