EN हिंदी
ذرہ | شیح شیری
zarra

نظم

ذرہ

سرشار صدیقی

;

دشت کی بے پایاں وسعت میں
کوہساروں کے دامن میں

ذرہ
اپنے ہونے اور نہ ہونے کا دکھ جھیل رہا تھا

ذرہ جو خود اپنے وجود میں
ایک مکمل دنیا ہے

جس کے بطن میں
سارا نظام شمس و قمر پوشیدہ ہے

جس کی وحدت کے سینے میں
نظر نہ آنے والی کثرت کا جلوہ ہے

اہل نظر نے پچھلی صدی میں
اس پامال ضمیر کے اندر

اس بے نام وجود میں مضمر
اس طاقت کی گواہی دی ہے

جو اس کے بیدار خمیر میں
صدیوں تک خوابیدہ رہی ہے

اہل ہنر اہل حکمت نے
جب اس خفتہ قوت کا ادراک کیا

ذرے کا دل چاک کیا
صدیوں کی سہمی ہوئی

نا آسودہ محرومی کو بے باک کیا
اسی توانائی کی بدولت

اسی حقیر سے بے توقیر سے
خاکستر ذرے نے

اک دن
ہیروشیما کو خاک کیا