مہیب روحوں کے قہقہوں سے
مآثر جاں لرز اٹھے ہیں
لہو کی رفتار زہر قاتل کی دھار بن کر
دل کی گہرائیوں میں پیہم اتر رہی ہے
ہڈیاں آگہی کی بیدار آگ میں پھر پگھل رہی ہیں
حیات سے بے خبر فضاؤں میں
جسم تحلیل ہو رہا ہے
شب سیہ کے ڈراؤنے فاصلوں سے لٹکی ہوئی
شپرہ چشم آرزوئیں یہ چاہتی ہیں
کہ تیرگی کو میں روح اپنی فروخت کر دوں
اور اس اجالے کو بھول جاؤں
جو اب بھی میرا مسیح موعود جسم و جاں ہے
مہیب روحوں کے قہقہوں نے
میری آواز چھین لی ہے
میں گھر کی دیوار پر نگاہیں جمائے بیٹھا ہوں
جیسے میرے تمام الفاظ گھر کی دیوار میں نہاں ہیں
مہیب روحوں کے قہقہوں میں
کچھ اجنبی اجنبی صدائیں ابھر رہی ہیں
وقت کا چاک چل رہا ہے
زمین کی سانس اکھڑ رہی ہے
میں سوچتا ہوں
وہ زرد سورج نہ جانے کب آئے گا
کہ جس کا
کتاب سیارگاں میں وعدہ کیا گیا ہے
کتاب سیارگاں کے مالک
میں اس اندھیرے سے تھک گیا ہوں
نظم
زرد سورج
سحر انصاری