یہ کس کے قدموں کی چاپ آئی۔۔۔ کون آیا
یہ بام و در اب جو خستہ جاں ہیں
یہ چونک اٹھے
اور یاس و حسرت سے شکل ہم سب کی تک رہے ہیں
دراڑ اپنے جگر کی لے کر کرب کی شدت
کو سہہ کر نیلے سے پڑ گئے ہیں۔۔۔
کسی کے ہاتھوں کے لمس کو ترس رہے ہیں
نمی کو آنکھوں میں ڈبڈبائے صحن کے رستے عبور کر کے
اسی ستوں کے شکستہ سائے میں
سر جھکائے گزشتہ یادوں میں کھو گئی ہوں
وہی ستوں جو تھکے تھکے سے
ملول ہیں اور شگاف تنہائی سے سرخ اینٹیں
زخم کی مانند جھانکتے ہیں اور رس رہے ہیں
جسے چنبیلی کی زرد باہیں لگا کے سینے سے
کہہ رہی ہیں دکھوں کو تیرے میں جانتی ہوں
تجھی میں تو جذب ہو چکی ہوں
وہ پلکیں خوابوں سے الجھی الجھی وہ سرخ جوڑے میں سہمی سہمی
بسی حنا میں لرزتی باہیں تری ہی گردن میں تھیں حمائل
تمہیں نے جس کو وداع کیا تھا وہ دور جا کر اک ایسی بستی میں بس گئی ہے
جہاں کوئی ہم زباں نہیں ہے
منڈیر پر کی نحیف بیلیں
چاروں جانب کو دیکھتی ہیں۔۔۔۔ وہ کیسے بولیں کہ ان کے لب پہ
سکوت پیہم کی مہریں سی لگی ہوئی ہیں
مگر دعا اک فضا میں گونجی
کہ تو جہاں ہے وہیں کھلے تو
بلا سے دامن ہے میرا خالی
نہیں میسر جو بوند اک بھی!
نظم
زرد چمیلی
صوفیہ انجم تاج