سمندر تجھے چھوڑ کر جا رہا ہوں
تو یہ مت سمجھنا
کہ میں تیری موجوں کی زنجیر کی چیخ سے بے خبر ہوں
یہی میں نے سوچا ہے اپنی زمیں کو
افق سے پرے یوں بچھا دوں
حداین و ں تک اٹھا دوں
وہ تو ہو کہ میں
اپنی وسعت میں لا انتہا ہیں
مگر ہم کناروں کے مارے ہوئے ہیں
نظم
زنجیر کی چیخ
شاذ تمکنت