جب آگ جلی ناف کے نیچے تو زمیں پھیل گئی
آگ جلی اور بدن پھیل گئے
آنکھوں کی آوارگی بے رنگ ہوئی
دھوپ ہوا چاندنی
سب بستیوں میں خاک اڑی
قافلے ہی قافلے تھے
قافلے جو درد کے وطنوں سے چلے
چلتے گئے اجنبی خوشبو کی طرف
اس کی طرف جس کے لیے ساری کتابوں میں لکھا ہے
وہ کبھی ہاتھ نہیں آتی کبوتروں سے چٹاتی ہے
مگر رات کے دروازے پہ پہنچے تو ستارے نہ ملے
لوگ ابھی صبح کی امید میں شب کاٹتے ہیں
لوگ دکھی لوگ اکیلے ہیں
انہیں راستہ دو سینے سے چمٹا لو
ہر اک راستے میں جلتی ہوئی آگ بجھا دو کہ بدن
پھیلتے جاتے ہیں زمیں تنگ ہوئی جاتی ہے
جو آگ بجھانے کے لئے آئے تھے
سب خاک ہوئے لوٹ نہیں پائے
ہوا ان کے لئے دستکیں دیتی ہے
زمیں ان کے لیے پھول کھلاتی ہے
نظم
زمین ان کے لئے پھول کھلاتی ہے
عباس اطہر