زمیں کی رات کی ہے حکمرانی
اسی کا ایلچی سورج ہے
آؤ!
بجھی جو روشنی دیتی ہیں وہ شمعیں جلاؤ
اسی کے یہ خزاں دیدہ چمن ہیں
دمکتے آنسوؤں کے بیچ بو کر
زمین خواب سے اپنا کوئی گلشن اگاؤ
اسی کے ہیں یہ چشمے تلخ سارے
ازل کی تشنگی کو ساتھ لے کر
سر صحرا کھڑے ہو کر سرابوں کو بلاؤ
نظم
زمیں کی رات
آصف رضا