ایک شب ہلکی سی جنبش مجھے محسوس ہوئی
میں یہ سمجھا مرے شانوں کو ہلاتا ہے کوئی
آنکھ اٹھائی تو یہ دیکھا کہ زمیں ہلتی ہے
جس جگہ شے کوئی رکھی ہے وہیں ہلتی ہے
صحن و دیوار کی جنبش ہے تو در ہلتے ہیں
باہر آیا تو یہ دیکھا کہ شجر ہلتے ہیں
کوئی شے جنبش پیہم سے نہیں ہے محروم
ایک طاقت ہے پس پردہ مگر نامعلوم
چند لمحے بھی یہ نیرنگی عالم نہ رہی
زلزلہ ختم ہوا جنبش پیہم نہ رہی
حیرت دید سے انگشت بدنداں تھا میں
شاہد جلوۂ قہاری یزداں تھا میں
دفعتاً ایک صدا آہ و فغاں کی آئی
میرے اللہ یہ گھڑی کس پہ مصیبت لائی
گل کیا زلزلۂ قہر نے کس گھر کا چراغ
کس پہ ڈھایا یہ ستم کس کو دیا ہجر کا داغ
جا کے نزدیک یہ نظارۂ حرماں دیکھا
ایک حسینہ کو بصد حال پریشاں دیکھا
بیضوی شکل میں تھے حسن کے جلوے پنہاں
آنکھ میں سحر بھرا تھا مگر آنسو تھے رواں
میں نے گھبرا کے یہ پوچھا کہ یہ حالت کیوں ہے
تیری ہستی ہدف رنج و مصیبت کیوں ہے
بولی اے شاعر رنگین طبیعت مت پوچھ
روز و شب دل پہ گزرتی ہے قیامت مت پوچھ
لوگ دنیا کو تری مجھ کو زمیں کہتے ہیں
اہل زر مجھ کو محبت میں حسیں کہتے ہیں
میں انہیں حسن پرستوں کی ہوں تڑپائی ہوئی
تجھ سے کہنے کو یہ راز آئی ہوں گھبرائی ہوئی
زرپرستوں سے ہیں بد دل مری دنیا کے غریب
ہیں گرفتار سلاسل مری دنیا کے غریب
مجھ سے یہ تازہ بلائیں نہیں دیکھی جاتی
ظالموں کی یہ جفائیں نہیں دیکھی جاتیں
چاہتی ہوں مرے عشاق میں کچھ فرق نہ ہو
مفت میں کشتیٔ احساس وفا غرق نہ ہو
ایک وہ جس کو میسر ہوں عمارات و نقیب
ایک وہ جس کو نہ ہو پھونس کا چھپر بھی نصیب
صاحب دولت و ذی رتبہ و زردار ہو ایک
بے نوا غمزدہ و بیکس و لاچار ہو ایک
ایک مختار ہو، اورنگ جہاں بانی کا
اک مرقع ہو غم و رنج و پریشانی کا
سخت نفرت ہے مجھے اپنے پرستاروں سے
چھین لیتے ہیں مجھے میرے طلب گاروں سے
چیرہ دستی کا مٹا دیتی ہیں سب جاہ و جلال
حیف صد حیف کہ حائل ہے غریبوں کا خیال
یہ نہ ہوتے تو دکھاتی میں قیامت کا سماں
یہ نہ ہوتے تو مٹاتی میں غرور انساں
ایک کروٹ میں بدل دیتی نظام عالم
اک اشارے ہی میں ہو جاتی ہے یہ محفل برہم
اک تبسم سے جہاں برق بہ داماں ہوتا
نہ یہ آرائشیں ہوتیں نہ یہ ساماں ہوتا
ہر ادا پوچھتی سرمایہ پرستوں کے مزاج
کچھ تو فرمائیے حضرت کہ ہیں کس حال میں آج
لکھ پتی سنکھ پتی بے سر و ساماں ہوتے
جان بچ جائے بس اس بات کے خواہاں ہوتے
برسر خاک نظر آتے ہیں قصر و ایواں
اشک خونیں سے مرے اور بھی اٹھتے طوفاں
میری آغوش میں سب اہل ستم آ جاتے
میرے برتاؤ سے بس ناک میں دم آ جاتے
بعض کے منہ غم آلام سے کالے کرتی
بعض کو موت کی دیوی کے حوالے کرتی
خون زردار ہی مزدور کی مزدوری ہے
میں جو خاموش ہوں یہ باعث مجبوری ہے
میری آغوش میں جابر بھی ہیں مجبور بھی ہیں
میرے دامن ہی سے وابستہ یہ مزدور بھی ہیں
ضبط کرتی ہوں جو غم آتا ہے سہ جاتی ہوں
جوش آتا ہے مگر کانپ کے رہ جاتی ہوں
نظم
زلزلہ
شکیل بدایونی