کیا عجب شام ہے! دیکھو زیب النسا
فرصتوں میں کسی پیڑ کی نرم چھاؤں میں سوچی ہوئی
آبشاروں سے گرتے ہوئے پانیوں میں نہائی ہوئی
تیرے ملبوس کی خوشبوؤں کو اڑاتی ہوئی
کیا عجب شام ہے
تیرے شانوں پہ آنچل ٹھہرتا نہیں
اور تو نے ہوا کو بہانہ کیا
کتنی چالاک ہو
چائے میں اپنی پوروں کی شیرینیاں گھول کر پوچھتی ہو
کہ چینی کے کتنے چمچ لیجئے گا
سمجھ یہ رہی ہو
کہ ہم تیرے سانسوں کی اور تیری دھڑکن کی رفتار کو جانتے ہی نہیں ہیں
سنہری فضا کو ہنساتی ہوئی سادہ لڑکی
تجھے کیا خبر ہے
عجب ذائقہ بن گیا ہے لعاب دہن
چھو کے دیکھا نہیں اور ازبر کیا تیرا سارا بدن
تیرے تن سے لپٹتی چلی جا رہی ہے مری ہر نظر
کس طرح سے چھپائے گا تیرا بدن
یہ تیرا پیراہن
نظم
زیب النسا ایک نظم تمہارے لئے بھی
مقصود وفا