EN हिंदी
زہر کا سفر | شیح شیری
zahr ka safar

نظم

زہر کا سفر

سجاد باقر رضوی

;

میں انسان ہوں
میں نے اک ناگن کو ڈسا

اس کو اپنا زہر دیا
ایسا زہر کہ جس کا منتر کوئی نہیں

اس کی رگ رگ میں چنگاری
اس کے لہو میں آگ

میرے زہر میں نشہ بھی ہے
ایسا نشہ جس کا کوئی خمار نہیں

وہ ناگن اب مست نشے میں جھومے گی
بہک بہک کر ہر سو مجھ کو ڈھونڈے گی

اس کی زباں باہر کو نکلی
اس کے منہ میں جھاگ

آج ہے لوگو پورن ماشی
زخمی ناگن زہر اگلتی

انسانوں کو ڈس کے ان کے خون میں اپنا زہر بھرے گی
ایسا زہر کہ جس کا منتر کوئی نہیں

ان کی رگ رگ میں چنگاری
ان کے لہو میں آگ

اس کی زباں باہر کو نکلی
اس کے منہ میں جھاگ

مجھ کو ڈس کر میرے خون کو واپس میرا زہر کرے گی
میری رگ رگ میں چنگاری

میرے لہو میں آگ