EN हिंदी
زہر | شیح شیری
zahr

نظم

زہر

اسلم آزاد

;

شب کا سناٹا
اب تو پگھل جائے گا

روح کی تیرگی بھی بکھر جائے گی
میرے اس آئینہ خانۂ جسم میں

کتنے سورج
بہ یک وقت در آئے ہیں

اب زمیں کی تری
خشک ہو جائے گی

سانپ کا زہر
سارا نکل جائے گا