EN हिंदी
زباں پر ذائقہ دو پانیوں کا ہے | شیح شیری
zaban par zaiqa do paniyon ka hai

نظم

زباں پر ذائقہ دو پانیوں کا ہے

محمد انور خالد

;

زباں پر ذائقہ دو پانیوں کا ہے
سمندر درمیاں ہوتا تو اس سے پوچھتے

کس سمت جائے گا مسافر کل
خنک پانی کے بجرے پر نمک کی گرم لہروں میں

اکیلا جانے والا جس طرف بھی جائے گا تنہا نہیں ہوگا
محبت پانیوں پر کھیلتی ہوگی

سو یہ جل مکڑیوں کی جعل سازی تھی
کہ ساحل سے الجھ کر لوگ لہروں میں اترتے

اور ان کو خوف ہوتا آنسوؤں کے پانیوں میں خشک ہونے کا
میں ان کو پانیوں کی نذر کرتا ہوں

سو اے آدھے بدن کی مہرباں مچھلی
تم اپنے آنسوؤں کو خشک مت کرنا

محبت پانیوں پر کھیلتی ہوگی
اور اس کا ذائقہ کھل جائے گا

جس وقت جائے گا مسافر کل
خنک پانی کے بجرے پر نمک کی گرم لہروں میں