EN हिंदी
زاویے | شیح شیری
zawiye

نظم

زاویے

محمد تنویرالزماں

;

مجھے تو بے سکوں سا کر گیا اس شوخ کا کہنا
حقیقت کے ترازو میں کبھی تولا ہے جذبوں کو

محبت کے تقدس کا بھرم رکھا کبھی تو نے
کبھی بے ساختہ لپٹا ہے محروم صباحت سے

کبھی حال کجی پوچھا ہے مسحور قباحت سے
کبھی دشت جنوں پاٹا ہے جذبات ارادت سے

کبھی صرصر سے تلخی کا سبب پوچھا متانت سے
کبھی ترجیح دی خاک چمن پر ریگ صحرا کو

گل و بلبل سے ہٹ کر بھی کبھی دیکھا ہے فطرت کو
گل و بلبل بجا لیکن چمن میں خار بھی تو ہے

صباحت وقف گلشن ہی نہیں کہسار بھی تو ہیں
کئی پوشیدہ از فکر و نظر شہکار بھی تو ہیں

غلط ہیں ناصیہ فرسائیاں تیری طلب تیری
تری راہیں جدا ہیں اہل دل سے اہل حسرت سے

ترا حسن نظر محدود ہے ذاتی مقاصد تک
تری یہ شپرہ چشمی ہی تجھے برباد کر دے گی