زندگی تو مجھے کس موڑ پہ لے آئی ہے
خواب کھلتے تھے جہاں برف وہاں چھائی ہے
سو دریچے ہیں مگر شمع کسی پر بھی نہیں
چاند نکلے مری راتوں کا مقدر بھی نہیں
کیا کروں کیا نہ کروں ہاتھ میں پتھر بھی نہیں
شیش محلوں کو کوئی غم بھی نہیں ڈر بھی نہیں
لوگ گونگے ہیں بیاباں میں اذاں کیسے ہو
لوگ قاتل ہیں علاج غم جاں کیسے ہو
لوگ پتھر ہیں تو احساس زیاں کیسے ہو
کس کو فرصت ہے جو پوچھے کہ میاں کیسے ہو
رات جب ختم ہوئی تھی تو سحر لگتی تھی
روشنی راہ گزر راہ گزر لگتی تھی
زندگی کوچۂ جاناں کا سفر لگتی تھی
اپنی منزل کہیں جنت کے ادھر لگتی تھی
کچھ بھی آنکھوں میں نہیں اشک ندامت کے سوا
کچھ بھی دامن میں نہیں داغ ملامت کے سوا
کچھ بھی چہرے پہ نہیں گرد مسافت کے سوا
اپنی دوکان میں سب کچھ ہے محبت کے سوا
نظم
یہ وہ بستی ہی نہیں
قیصر الجعفری