یہ رات ہے یا حیات ہے پل صراط ہے
اندھیرے میں لمحوں کی تیز دھار پر چلے ہوئے
ہلکی آنکھ ملتے ہوئے
لہولہان قدم
لیکن کٹ کر گرتے ہیں نہیں
کرتے بھی نہیں
زخمی پیر لیے ابھی اور کتنی دور چلنا ہے
معلوم نہیں
اس راستے کی سرحد
ہمیشہ نزدیک دکھائی دیتی ہے
لیکن نزدیک پہنچتے ہی معدوم ہو جاتی ہے
اور ہم ایک اور راستہ
ایک اور رہ گزار ابھر آتی ہے
شاید یہی منزل بھی ہے اور یہی راستہ بھی ہے
شاید یہی اس زندگی کا ساحل بھی ہے
کہ ہم چلتے رہیں
خاموش یا پھر چلاتے یا گاتے ہوئے
خود اپنے آپ کو کوئی گیت کوئی نغمہ
سناتے ہوئے
گانے والے بھی ہم سننے والے بھی ہم
ہماری دعائیں بھی تھی
ہماری زبان سے نکل کر ہمارے
دل تک ہی جاتی ہیں
دل اگر سن لے تو دعاؤں میں اثر آ جاتا ہے
نہ سنے تو ہم ہاتھ اوپر اٹھا کر نیچے گراتے رہتے ہیں
اور روتے رہتے ہیں
اس رات کے اندھیارے میں
کھلے ہوئے زخموں کے پھول بھی ہمارے
ہماری آہوں کے کانٹے بھی ہمارے
ہم تمہارے تم بھی ہمارے
خوشیاں بھی اپنی غم بھی ہمارے
اس پھول اور دھول سے نکل جانے کے بعد
پل صراط سے پھسل جانے کے بعد
تقدیر سنبھل جانے کے بعد
جب آنکھ کھلے گی
تو کوئی پھولوں کی بیچ ہماری منتظر نہ ہوگی
ہماری نیندوں میں
کوئی ہنستا ہوا خواب نہیں آئے گا
ہمارے ہاتھوں میں کوئی گلاب نہیں آئے گا
ہمارے سامنے کوئی بام شراب
اور بانہوں میں کوئی شہاب نہیں آئے گا
آئے گا تو
اک مہیب سناٹا
اک لمبی خاموشی
اک نہ سنائی دینے والی آواز
اک نہ دکھائی دینے والا خلا
جس میں نہ ہم ہیں
نہ ہمارا سایہ ہوگا
نہ ہونے کا علم
نہ ہونے کا احساس
ایک ایسا لمبا پل
جس کی کہانی ہم اپنے دوسرے شہر میں بھی
سنا نہ پائیں گے
ہم وہاں سے لوٹ کر
دوبارہ یہاں آ نہ پائیں گے
نظم
یہ رات
خلیل مامون