مرے مخالف نے چال چل دی ہے
اور اب
میری چال کے انتظار میں ہے
مگر میں کب سے
سفید خانوں
سیاہ خانوں میں رکھے
کالے سفید مہروں کو دیکھتا ہوں
میں سوچتا ہوں
یہ مہرے کیا ہیں
اگر میں سمجھوں
کے یہ جو مہرے ہیں
صرف لکڑی کے ہیں کھلونے
تو جیتنا کیا ہے ہارنا کیا
نہ یہ ضروری
نہ وہ اہم ہے
اگر خوشی ہے نہ جیتنے کی
نہ ہارنے کا ہی کوئی غم ہے
تو کھیل کیا ہے
میں سوچتا ہوں
جو کھیلنا ہے
تو اپنے دل میں یقین کر لوں
یہ مہرے سچ مچ کے بادشاہ و وزیر
سچ مچ کے ہیں پیادے
اور ان کے آگے ہے
دشمنوں کی وہ فوج
رکھتی ہے جو کہ مجھ کو تباہ کرنے کے
سارے منصوبے
سب ارادے
مگر ایسا جو مان بھی لوں
تو سوچتا ہوں
یہ کھیل کب ہے
یہ جنگ ہے جس کو جیتنا ہے
یہ جنگ ہے جس میں سب ہے جائز
کوئی یہ کہتا ہے جیسے مجھ سے
یہ جنگ بھی ہے
یہ کھیل بھی ہے
یہ جنگ ہے پر کھلاڑیوں کی
یہ کھیل ہے جنگ کی طرح کا
میں سوچتا ہوں
جو کھیل ہے
اس میں اس طرح کا اصول کیوں ہے
کہ کوئی مہرہ رہے کہ جائے
مگر جو ہے بادشاہ
اس پر کبھی کوئی آنچ بھی نہ آئے
وزیر ہی کو ہے بس اجازت
کہ جس طرف بھی وہ چاہے جائے
میں سوچتا ہوں
جو کھیل ہے
اس میں اس طرح اصول کیوں ہے
پیادہ جو اپنے گھر سے نکلے
پلٹ کے واپس نہ جانے پائے
میں سوچتا ہوں
اگر یہی ہے اصول
تو پھر اصول کیا ہے
اگر یہی ہے یہ کھیل
تو پھر یہ کھیل کیا ہے
میں ان سوالوں سے جانے کب سے الجھ رہا ہوں
مرے مخالف نے چال چل دی ہے
اور اب میری چال کے انتظار میں ہے
نظم
یہ کھیل کیا ہے
جاوید اختر