ہر ایک جسم مرا ہے، ہر ایک جان مری
یہ خال و خد مرے اپنے، یہ آن بان مری
ستم تو یہ ہے کہ مظلوم میں ہوں ظالم میں
ہر ایک زخم مجھی سے حساب مانگے گا
ہر ایک داغ مری آستیں سے جھانکے گا
ہزار ہا مری پیشانیوں کے چاند بجھے
ہزار ہا مرے لب ہمکنار زہر ہوئے
ہزار ہا مرے جسموں کی ڈالیاں ٹوٹیں
ہزار ہا مری آنکھوں کی مشعلیں ڈوبیں
جہاں پہ آگ لگی ہے، وہاں کھلونے تھے
جہاں پہ خاک اڑی ہے، وہاں پہ جھولے تھے
جہاں پہ سرد ہیں سینے وہاں پہ چوکھٹ تھی
جہاں پہ بند ہیں آنکھیں وہاں دریچے تھے
میں اس دھوئیں میں کہاں اپنی لاش کو ڈھونڈوں
میں اس ہجوم میں کیسے شمار زخم کروں
ستم تو یہ ہے کہ مظلوم میں ہوں، ظالم میں
ہر ایک زخم مجھی سے حساب مانگے گا!
ہر ایک داغ مری آستیں سے جھانکے گا
نظم
یہ خال و خد مرے اپنے
زہرا نگاہ