EN हिंदी
یہ کون تم سے اب کہے | شیح شیری
ye kaun tum se ab kahe

نظم

یہ کون تم سے اب کہے

الماس شبی

;

یہ کون تم سے اب کہے
یہ روز روز درد کے جو سلسلے ہیں کم کرو

ذرا تو تم کرم کرو
جو روز روز آؤ گے جو روز روز جاؤ گے

کہاں تلک رلاؤ گے کہاں تلک ستاؤ گے
نہ مجھ پہ اب ستم کرو جو ہو سکے کرم کرو

ملا گیا ہے راستہ یہ مشکلوں سے جو ہمیں
ملیں تو اس طرح ملیں کہ پھول بن کے ہم کھلیں

یہ میں جو میں ہوں نہ رہوں
یہ تم جو تم ہو نہ رہو

کچھ اس طرح بہم کرو
چلو یہ دھاگے زیست کے انگلیوں پہ ڈال کے

کھیلتے ہیں ہم ذرا بھولتے ہیں سب ذرا
کہیں اگر الجھ گئے تو پیار سے سلجھ گئے

محبتوں کے کچھ دئیے جو مل کے ہم جلائیں گے
کبھی جلے کبھی بجھے کبھی بجھے کبھی جلے

چراغ زندگی اگر
تو مل کہ ہم بچائیں گے

بچھڑ گئے تو پھول کھل نا پائیں گے
یہ کون تم سے اب کہے