حیران ہوں
یہ کون سا شہر ہے
میرؔ و غالبؔ کی دلی کبھی ایسی تو نہ تھی
ہر گلی ہر نکڑ پر سانپ کنڈلی مارے بیٹھے ہیں یہاں
پیدا ہوتے ہی کوئی بھی سنپولہ
ڈسنے کے لیے پر تولنے لگتا ہے
جدھر دیکھیے
ہر جگہ سانپ ہی سانپ ہیں
کہیں خونی دروازے کے عقب سے
تو کہیں دھولہ کنواں کے فلائی اوور پر
ہر جگہ کنڈلی مارے ہوئے یہاں
ہزارہا سانپ ایسے ہیں
جو ہر دم تیار بیٹھے ہیں
موقع ملتے ہی
وہ کسی بھی نرم و گداز بدن کو
نشانہ اپنا بنا لیتے ہیں
اپنے زہریلے دانت گاڑ نے کے لیے
جب وہ پھنپھنا کر باہر آتے ہیں
کسی بھی راہگیر کا رستہ روکے
ایک دم
تن کے کھڑے ہو جاتے ہیں
حتٰی کہ
بوڑھا ناگ بھی اب یہاں
اپنے کھنڈر میں تن کے کھڑا ہے
اسے بھی انتظار ہے
برسات کی اس کالی اندھیری رات کا ہے
جب وہ بو الہوس
اپنے کہنہ مشق دانتوں کو
کسی نرم و نازک غزالہ پر
تیز کر سکے حملۂ خوں ریز کر سکے
اپنی عمر کے اس آخری پڑاؤ میں وہ بو الہوس
کوئی واردات جنوں انگیز قیامت خیز کر سکے
یا خدا
یہ کون سا مقام ہے
کیا یہ تیرا قہر نہیں ہے
کیا یہ وہی پرانا شہر نہیں ہے
سوچتا ہوں
میرؔ و غالبؔ کی دلی کبھی ایسی تو نہ تھی
نظم
یہ کون سا شہر ہے
پرویز شہریار