یہ کیسی جنگ ہے جو اپنی منفعت کے لئے
غریب ملکوں کی آزادیوں کو چھینتی ہے
یہ کیسی جنگ ہے جس میں مقابلے کے بغیر
نشانہ سادھ کے گولی چلائی جاتی ہے
یہ کیسی جنگ ہے جس میں اسیر لوگوں پر
اذیتوں کے لئے کتے چھوڑے جاتے ہیں
یہ کیسی جنگ ہے جس میں بموں کی یورش سے
سماعتیں بھی خدا کی پناہ چاہتی ہیں
یہ کیسی جنگ ہے شہروں کی تنگ گلیاں بھی
بھڑکتے شعلوں سے روشن دکھائی دیتی ہیں
یہ کیسی جنگ ہے جس میں وفا پرستوں کی
ہلاکتوں کی خبر بھی اڑائی جاتی ہے
چلو یہ پوچھیں تباہی کے کاشت کاروں سے
بنام امن کہاں تک لہو بہاؤ گے
نکل کے دیکھو کبھی ایٹمی حصاروں سے
تمام عالم انسانیت ہے شرمندہ
یہ سوچو خون کے سوداگرو ذرا سوچو
لہو کی ندیاں بہیں گی اگر زمینوں پر
تمہاری کاشت کے پر ہول منظروں کو لیے
تمہارے ملکوں کے شہروں کو بھی ڈبو دیں گے
ہر ایک ظلم تمہیں اپنا یاد آئے گا
پناہ ڈھونڈو گے تم رات کے اندھیروں میں
مگر وہ رات بھی شعلوں میں ڈوب جائے گی
یہ وقت تم پہ قیامت سے کم نہیں ہوگا
تمہارے کرب کا ہم کو بھی غم نہیں ہوگا

نظم
یہ کیسی جنگ ہے
شارق عدیل