یہ کیسی گھڑی ہے
زمانی تسلسل کا پہیہ گھما کر
یہاں وقت کو
جیسے فطرت سے کاٹا گیا ہے
خلیجیں جو رکھی گئیں
نور و ظلمت کے مابین
ان سب کو پاٹا گیا ہے
سمے رات کا ہے
مگر دھوپ
سورج سے لے کر اجازت
ہمارے سرہانے کھڑی ہے
یہ کیسی گھڑی ہے
یہ کیسی گھڑی ہے
کہ جیسے ہمارے سرہانے کا
بالکل ہماری ہی تقویم کا
اور ہمارے زمانے کا
اک طاق ہے
جس پہ کوئی مقدس صحیفہ نہیں
اک ریاکار مشعل دھری ہے
مصفا صراحی میں
آب سماوی نہیں
ریگ عصیاں بھری ہے
بہشتی درختوں کے
پاک اور رس اسمار میں
کوئی نوک نجاست گڑی ہے
خدایا
ترے نیک بندوں پہ
افتاد کیسی پڑی ہے
یہ کیسی گھڑی ہے
نظم
یہ کیسی گھڑی ہے
رفیق سندیلوی