معجزہ تھا عجب
آہنی چھنچھناہٹ سے زنجیر خود اپنے قدموں میں آ کر گری
بھاری بھرکم دہانے کھلے
اور چرخ چوں کی فریاد کے ساتھ
پٹری پر ڈبے سرکنے لگے
صبح کی دودھیا چھاؤں میں
آنکھ ملتے ہوئے سب یہ حیرت زدہ دیکھتے تھے
کوئی کھینچنے والا انجن نہ تھا
اور ترائی اترتی گئی
ان کی رفتار بڑھتی گئی
خار و خس کو کچلتی ہوئی
تیز سے تیز تر
تیز تر تیز تر
اب یہ پٹری جہاں ان کو لے جائے
جائیں گے
اب یہ مسافر
جو اس فضل ربی پہ نازاں تھے
حیراں ہیں
مشکوک نظروں سے
اک دوسرے سے گریزاں سے
وہموں کو دل میں چھپائے ہوئے
تیز رفتار بڑھتے چلے جائیں گے
یہ کہاں جائیں گے
نظم
یہ کہاں جائیں گے
ابرارالحسن