یہ ہم کون ہیں
وقت کی شاہراہوں پہ ننگے قدم
تیز تیز دھوپ میں
بے ردا بے اماں
راستے میں کوئی میل پتھر نہیں
اور ہوائے مسافت گزرتے ہوئے
رک کے کہتی ہے یہ
کوئی منزل تمہارا مقدر نہیں
یہ ہم کون ہیں
بے یقینی کے ساحل پہ تنہا کھڑے
آنکھ کی کشتیاں
پانیوں کے سفر پر روانہ ہوئیں
دور تک
نیلگوں
سبز پانی کا گرداب ہے
واپسی کا تصور بھی اب خواب ہے
خواب ہے
یہ ہم کون ہیں
نیند میں جاگتے
خواب میں بھاگتے
خیمۂ جاں کو اپنے ہی ہاتھوں میں تھامے ہوئے
جن کے کچے گھروندوں کو
بے وقت کی بارشیں کھا گئیں
سب ستم ڈھ گئیں
یہ ہم کون ہیں
سجدہ گاہ محبت میں جن کی جبیں
سنگ در ہو گئی
معتبر ہو گئی
اور ہونٹوں پہ حرف دعا تک نہیں
التجا تک نہیں
آسمانوں کی کھڑکی کھلی ہے مگر
خالق شش جہت
مالک بحر و بر
دیکھ سکتا نہیں
پوچھ سکتا نہیں
یہ ہم کون ہیں
نظم
یہ ہم کون ہیں
شاہین مفتی