یہ ہاتھ کتنے حسیں کتنے خوب صورت ہیں
یہ ہاتھ جن پہ ہے اک جال سا لکیروں کا
لکیریں جن میں ہیں صدیوں کے ارتقا کے نشاں
نشاں عمل کے عزائم کے علم و حکمت کے
صعوبتوں کے صلابت کے اور مشقت کے
وفا کے قرب و رفاقت کے مہر و الفت کے
صفا و صدق کے انسانیت کی خدمت کے
کرم کے جود و سخا کے عطا کے بخشش کے
کمال و کشف کے کاوش کے اور کوشش کے
یہ ہاتھ کتنے حسیں کتنے خوبصورت ہیں
مگر ہمیشہ مجھے ان سے خوف آیا ہے
یہ ہاتھ سانپ کا پھن ہیں
یہ ہاتھ ہاتھ نہیں
مجھے نہ دیکھو مرے ہاتھ پر نظر رکھو
نظم
یہ ہاتھ
سلیمان اریب