یہ دکھ کم کیوں نہیں ہوتا
میری جاناں
ہمیں بچھڑے تو
کتنے
دن
مہینے
سال
گزرے ہیں
مگر یہ چوٹ
گہری ہے
مگر یہ زخم
تازے ہیں
یہ دکھ کم کیوں نہیں ہوتا
میری جاناں
اگر میں ساتھ
دو پنچھی بھی بیٹھے دیکھتا ہوں تو
میرے ماضی کا ہر منظر
میری آنکھوں کے ڈوروں میں
ابھرتا ہے
تڑپتا ہے
میری آنکھوں کی پتلی ڈوب جاتی ہے
یہ دکھ کم کیوں نہیں ہوتا
میری جاناں
وہ سارے لوگ
جن کی وجہ سے
ہم لوگ بچھڑے تھے
مکمل زندگی کر کے
وہ سب قبر میں سوئے ہیں
تمہارا دکھ مرے سینہ میں لیکن
اب بھی زندہ ہے
جواں ہوتا ہی جاتا ہے
یہ دکھ کم کیوں نہیں ہوتا
مری جاناں
اب اتنی مدتوں میں
تم بھی شاید
بھول بیٹھی ہو
مرے سب دوست رشتہ دار
لاکھوں میل آگے ہیں
سفر میں زندگی کے
مگر میں رہ گیا کردار
تنہا
اس کہانی میں
یہ دکھ کم کیوں نہیں ہوتا
مری جاناں
نظم
یہ دکھ کم کیوں نہیں ہوتا
سراج فیصل خان