EN हिंदी
یہ دماغ | شیح شیری
ye dimagh

نظم

یہ دماغ

عذرا عباس

;

یہ دماغ سوتا ہی رہتا ہے
میلے ملگجے کپڑوں کی گٹھری

ایک اونگھتا ہوا کاہل وجود
نشے کی عادت سے بے کار

یہ دماغ سوتا ہی رہتا ہے
اہم کانفرنسوں میں

خاص مجلسوں میں
کوئی حادثہ ہونے والا ہو

یا کوئی تبدیلی آنے والی ہو
کونے میں گمڑی مارے پڑا رہتا ہے

سوچے ہوئے ایک عرصہ ہوا
معدے میں جلن ہوتی تھی

تو چل دیتا تھا کھوجنے کے لئے
زیادہ ہاتھ پاؤں پھر بھی نہیں مارتا تھا

گمڑی مارے ہوئے
کھوجنے کے لئے سوچنا

اس کے بس سے باہر تھا
پوچھے کوئی اس تھکے ہوئے سے

یہ کب بیدار ہوگا
کاہل

بے کار
گمڑی مارے ہوئے

ناکارہ
میلے ملگجے کپڑوں کی گٹھری

یہ دماغ