یہ آنکھیں ہر در و دیوار میں آنکھیں
یہ آنکھیں ریستورانوں میں ایوانوں میں کلبوں میں
ترے گھر کی اندھیری کوٹھری میں
جسم میں روحوں میں سانسوں میں
کلیسا کے دھواں دیتے ہوئے ہر طاق میں آنکھیں
یہ آنکھیں منبر و محراب میں آنکھیں
یہ آنکھیں جاگتے میں خواب میں آنکھیں
یہ آنکھیں غول کی صورت جھپٹتی ہیں
کہ جیسے شہر میں خونی پرندے آ گئے ہیں
رفیق جاں اندھیری سیڑھیوں میں یوں اکیلی مت کھڑی ہونا
یہ آنکھیں
نظم
یہ آنکھیں
محمد انور خالد