EN हिंदी
یقین سے یادوں کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا | شیح شیری
yaqin se yaadon ke bare mein kuchh kaha nahin ja sakta

نظم

یقین سے یادوں کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا

افتخار عارف

;

تم نے جو پھول مجھے رخصت ہوتے وقت دیا تھا
وہ نظم میں نے تمہاری یادوں کے ساتھ لفافے میں بند کر کے رکھ دی تھی

آج دنوں بعد بہت اکیلے میں اسے کھول کر دیکھا ہے
پھول کی نو پنکھڑیاں ہیں

نظم کے نو مصرعے
یادیں بھی کیسی عجیب ہوتی ہیں

پہلی پنکھڑی یاد دلاتی ہے اس لمحے کی جب میں نے
پہلی بار تمہیں بھری محفل میں اپنی طرف مسلسل تکتے ہوئے دیکھ لیا تھا

دوسری پنکھڑی جب ہم پہلی بار ایک دوسرے کو کچھ کہے بغیر
بس یوں ہی جان بوجھ کر نظر بچاتے ہوئے ایک راہداری سے گزر گئے تھے