شام کے آدھے بدن پر تھے شفق کے کچھ گراف
دن چرانے پر تلا تھا رات کا تیرہ لحاف
اور آنگن میں مرا ننھا سا صاحب
بھاگتا پھرتا تھا جانے کیا پکڑنے کے لئے
اپنی مٹھی کھول کر پھر بند کر لیتا تھا وہ
میں نے پوچھا ''کیا پکڑتے پھر رہے ہو صحن میں''
بولا کرنوں کو پکڑتا ہوں
''ابھی کچھ دیر میں سورج مرا
سو جائے گا
بستر میں جا کر رات کے۔۔۔''
نظم
یقین کی غیر فانی ساعت
منصور آفاق