یاد ایک جنگل ہے
اداسی جہاں ڈھونڈتی ہے
باہر نکلنے کا کوئی راستہ
راستہ مل جانے کی خوشی ہے یاد
اور نہ ملنے کا آنسو
رکے ہوئے آنسوؤں کا خزانہ ہے یاد
یا تمہارے بغیر گزرتے ہوئے
لمحوں کا ڈھیر
یاد ایک ڈھیر ہے
سوکھے ہوئے پتوں کا
برف کا یا ریت کا
میں نہیں جانتا
ایک بچہ مجھے بتاتا ہے
اور اپنے پستول میں پانی بھر کے
ڈھیر پر ڈالتا رہتا ہے
نظم
یاد
ذیشان ساحل