EN हिंदी
یاد | شیح شیری
yaad

نظم

یاد

عبید اللہ علیم

;

کبھی کبھی کوئی یاد
کوئی بہت پرانی یاد

دل کے دروازے پر
ایسے دستک دیتی ہے

شام کو جیسے تارا نکلے
صبح کو جیسے پھول

جیسے دھیرے دھیرے زمیں پر
روشنیوں کا نزول

جیسے روح کی پیاس بجھانے
اترے کوئی رسول

جیسے روتے روتے اچانک
ہنس دے کوئی ملول

کبھی کبھی کوئی یاد کوئی بہت پرانی یاد
دل کے دروازے پر ایسے دستک دیتی ہے