دھیرے دھیرے بہنے والی
ایک سلونی شام عجب تھی
الجھی سلجھی خاموشی کی
نرم تہوں میں
سلوٹ سلوٹ بھید چھپا تھا
سردیلی مخمور ہوا میں
میٹھا میٹھا لمس گھلا تھا
دھیرے دھیرے
خواب کی گیلی ریت پہ اترے
درد کے منظر پگھل رہے تھے
خواہش کے گمنام جزیرے
ساحل پر پھیلی خوشبو کے
مرغولوں کو نگل رہے تھے
دھیرے دھیرے
جانے کون سے موسم کے
دو پھول کھلے تھے
شہد بھری سرگوشی سن کر
جھکے جھکے سے
ہونٹ ہنسے تھے
بڑھنے لگا تھا ایک انوکھا
سن سن کرتا
بے کل نغمہ
یاد نہیں ہے
کہاں گرے تھے
میری بالی
اس کا چشمہ
نظم
یاد نہیں ہے
گلناز کوثر