اب بھی دروازہ روز کھلتا ہے
راستہ میرا تک رہا ہے کوئی
میرے گھر کے اداس منظر پر
کوئی شے اب بھی مسکراتی ہے
میری ماں کے سفید آنچل کی
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں روتی ہیں
فاصلہ اور کتنی تنہائی
آج کٹتی نہیں ہیں یہ راتیں
آسماں مجھ پہ طنز کرتا ہے
چاند تاروں میں ہوتی ہیں باتیں
اے وطن تیرے مرغ زاروں میں
میرے بچپن کے خواب رقصاں ہیں
مجھ سے چھٹ کر بھی وادیاں تیری
کیا اسی طرح سے غزل خواں ہیں
نظم
یاد
خلیلؔ الرحمن اعظمی