شب کی چادر اوڑھ کر آئی ہے
لمحوں کی مہکتی دھول میں لپٹی ہوئی
میری جانب دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہے
اور میں اپنے بستر خاشاک و خس پر
نیم وا آنکھوں سے دھندلی روشنی کو
دیر سے تکتا ہوا
دم بخود ہوں جھلملاتی سوچ میں کھویا ہوا
وہ قریب آتی ہے
میری سانس میں شعلے جگاتی ہے
مری دھڑکن کی لے کو کر رہی ہے تیز تر
اور مجھے بیدار تر ہشیار تر
ہاتھ جب بڑھتے ہیں چھونے کے لیے
اور ہو جاتی ہیں گہری چادر شب کی تہیں
اور چھا جاتی ہے سنولائے ہوئے لمحوں کی دھول
یاد بن جاتی ہے اک موہوم بھول
نظم
یاد
عزیز تمنائی