میں جب بھی گھر پہ آتی ہوں
بہت سی چیزیں لاتی ہوں
اور ان چیزوں میں اکثر
خود کو رکھ کر بھول جاتی ہوں
پتا اس وقت چلتا ہے
کہ جب تکیے پہ رکھنے کو
مجھے سر ہی نہیں ملتا
میسر خواب کیسے ہوں
کہ آنکھیں ہی نہیں ہوتیں
تھکن سے چور ہاتھوں کی
میں جب جب سسکیاں سنتی ہوں
اپنی کرچیاں چنتی ہوں
پہلو میں کہیں دل بھی نہیں ملتا
مجھے بس پاؤں ملتے ہیں جو پاؤں پاؤں چلتے
مجھے لے جاتے ہیں اک ایسے کمرے میں
جہاں پر کوئی میرا جسم اوڑھے سو رہا ہے
یہ کس نے سوئیاں سی روح میں میری چبھو دی ہیں
میں خود کو توڑ دیتی ہوں وہیں پر چھوڑ دیتی ہوں
سو بس چپ چاپ گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاتی ہوں
ہوائیں بین کرتیں جب برابر سے گزرتی ہیں
پکڑ کر ہاتھ ان کا پاس ہی اپنے بٹھاتی ہوں
نئے کچھ دیپ روشن کر کے خود بھی مسکراتی ہوں
ذرا سی ایک عورت ہوں
دیوں کی لو میں لیکن جگمگاتی ہوں
نظم
ورکنگ لیڈی
الماس شبی