بادل کے پردوں سے
تہہ دار کہروں میں ڈوبا ہوا
نور لپٹا ہوا
صبح کی اولیں دودھیا چھاؤں میں اک جھلک
آسمانوں کی وسعت کی
رم جھم ٹپکتی ہوئی
جھیل کی پر سکوں سطح پر تیرتی
یوں لگا جیسے میری پہنچ میں یہیں آ گئی
سطح جاں سے اٹھی یہ دعا
اس حسیں لمحۂ سحر آگیں میں خوشیوں سے بھر دے
مرے دل کی گہرائیوں کو
تو آواز آئی کی دامن بڑھا
اور جب دل کو وا کر دیا میں نے
تب اپنی کم مائیگی پہ بہت غم ہوا
نظم
وسعتیں
ابرارالحسن