اگر وہ پل مجھے اک بار مل جائے تو میں پوچھوں
کہ یہ سودا مرے سر میں سمایا کس لئے تو نے
یہ درد لا دوا دل میں جگایا کس لئے تو نے
خرد ادراک عقل و فہم سب بیگار ہوں جیسے
فراست دور بینی آگہی بے کار ہوں جیسے
حوالے استعارے مشورے دشوار ہوں جیسے
دلائل فلسفے منطق ذہن پر بار ہوں جیسے
بصیرت ہوشیاری علم سب خاموش تصویریں
نہ کوئی مشورہ اچھا نہ دانش مند تدبیریں
مسلسل بے کلی دیوانگی ہے خود فراموشی
فقط اک بے خودی آٹھوں پہر پر کیف مدہوشی
نظر ہر شکل میں ڈھونڈے اسی دل دار کی صورت
ہر اک آواز جیسے صاحب آواز کی مورت
سماعت پر نظر پر سوچ پر آسیب چھایا ہے
ہر آہٹ پر تمنا پوچھتی ہے کون آیا ہے
نظم
وہ پل
سلمان انصاری