EN हिंदी
وہ کہاں؟ | شیح شیری
wo kahan?

نظم

وہ کہاں؟

پروین شیر

;

جب بھی دل بھر آیا
آنکھیں چھلکیں

تنہائی کے اک گوشے میں
اس کے کاندھے پہ سر رکھ کر

اس سے دل کی باتیں کہہ کر
جی کچھ تو ہلکا ہوتا تھا

اس کی دل جوئی کی انگلی
میری پلکوں سے رخشاں گوہر چن چن کر

اپنی پلکوں کے دھاگے میں
پرو کے رکھ لیتی تھی

اک دن شام کے گہرے سائے
شجر کے زردی مائل آنسو

قطرہ قطرہ بہتے بہتے
میری آنکھوں میں در آئے!

بوجھل قدموں سے چل کر
اس کی بانہوں میں جانا چاہا

ہر گوشے میں اس کو ڈھونڈ کے ہار چکی ہوں
سب آئینے توڑ چکی ہوں!