EN हिंदी
وہ ایک آگ | شیح شیری
wo ek aag

نظم

وہ ایک آگ

کوثر مظہری

;

اک عجب آگ سی ہے سینے میں
جیسے ہو سینۂ شمشیر کی آگ

اک عجب آگ سی ہے باطن میں
جیسے ہو نالۂ شبگیر کی آگ

جیسے اک شعلۂ جوالہ فلک کو چھو لے
سینۂ سرد میں میرے ہے وہی آگ ابھی

تودۂ برف سے جو بجھ نہ سکے
بن کے شعلہ یہ بڑھی جاتی ہے

سوئے افلاک اٹھی جاتی ہے
اس کی زد میں ہیں

یہ اشیائے نظام عالم
بس کہ اک خوف ہے پہلو میں مرے

اپنی ہی آگ سے افکار نہ جل جائیں کہیں
سوچتا ہوں کہ دعا ہی مانگوں

میرے آتش کدۂ سینہ کو
میرا رب لطف و کرم کا کوئی چشمہ کر دے