EN हिंदी
وہ بولتی کچھ بھی نہیں | شیح شیری
wo bolti kuchh bhi nahin

نظم

وہ بولتی کچھ بھی نہیں

زہرا علوی

;

ہنستی مسکراتی ہے
نہ اب کھلکھلاتی ہے

وہ گھر سے باہر جاتے ہوئے
ڈر ڈر سی جاتی ہے

خود کو پردوں میں چھپاتی ہے
وہ بولتی کچھ بھی نہیں

سنا ہے
کسی آلی گھرانے کے

کسی اچھے عہدے کے
لڑکے نے

اسے مسل ڈالا تھا
انصاف کی عدالت میں

کچھ نوٹوں کے بدلے میں
انصاف کچل ڈالا تھا

اس کے مجبور بابا نے
باقی بیٹیوں کی خاطر

مجرم معاف کر دیا تھا
تب ہی سے

وہ بولتی کچھ بھی نہیں
بس آنسو بہاتی ہے