EN हिंदी
وہ بچھڑا ہے تو یاد آیا | شیح شیری
wo bichhDa hai to yaad aaya

نظم

وہ بچھڑا ہے تو یاد آیا

میثم علی آغا

;

وہ بچھڑا ہے تو یاد آیا
وہ اکثر مجھ سے کہتا تھا

محبت وہ نہیں ہے جو یہ نسل نو سمجھتی ہے
یہ پہروں فون پر باتیں

یہ آئے دن ملاقاتیں
اگر یہ سب محبت ہے

تو تف ایسی محبت پر
محبت تو محبت ہے

وصال و وصل کی خواہش سے بالاتر
کہا کرتا

محبت قرب کی خواہش پہ آئے تو سمجھ لینا
ہوس نے سر اٹھایا ہے

ہوس کیا ہے
فقط جسموں کی پامالی فقط تذلیل روحوں کی

کہا کرتا محبت اور ہوتی ہے
ہوس کچھ اور ہوتی ہے

سو جب بھی قرب کی خواہش پہ آ جائے محبت تو
سنو پھر دیر مت کرنا وہیں رستہ بدل لینا

وہ بچھڑا ہے تو یاد آیا