EN हिंदी
وہ بات | شیح شیری
wo baat

نظم

وہ بات

ابرارالحسن

;

وہ بات گئی
اب رات

بھری برسات
برستی جھڑی کی ٹپ ٹپ

راگ نہیں
جو اور لپٹ کر سنیں

معمے بھید
لبوں کے پھول

مچل کے کھلیں
لہکتی آگ پہ

ٹھنڈی برف
نشیلے برف

پہروں کٹیں
اب چاند کی چھم چھم لہر

چمکتے شوق
امڈتے سیل کا نشہ نہیں

کہ جس کی کھوج میں
سوکھی ریت پہ

میلوں
رات گئے تک چلیں

اب خوف
پریشاں زلف

در و دیوار پہ
لرزاں سائے

میں جیسے رینگ رہا ہے
عمر گزر گئی جاناں