جب زمیں کے پیاسے ہونٹ
بوند بوند کو ترسے
اس کی کوکھ نے جب بھی
سبز بچے جننے کی آرزو میں لب کھولے
تب شفیق بادل نے
اپنی جاں کے امرت سے
اس زمیں کے سینے میں
قطرہ قطرہ رس گھولا
بے بدن دراڑوں سے
زندگی اگا ڈالی
ہاں یہ سب ہوا لیکن
کوئی آ کے بادل سے
صرف اس قدر پوچھے
تیری پیاس کا دوزخ
سرد ہے کہ جلتا ہے
نظم
وہ اور میں
خان محمد خلیل