اس میں کتنا گھریلو پن ہے اس کی سانسوں میں نور ہے اور چھاتیاں
دودھ سے بھری ہیں اس کی روشن سیاہ آنکھوں کے پالنے میں دوسرا
مرد سو رہا ہے، میں جس کی سانسوں کے شور سے بار بار اٹھتا
ہوں دیکھتا ہوں تو میرے نزدیک صرف وہ ہے، سوائے
اس کے کوئی نہیں ہے، وہ میرے گھر میں ہے اور کس درجہ اجنبی
ہے، ابھی اسے اٹھ کے دور جانا ہے جسم دھونا ہے، اپنے
بچوں کو دیکھنا ہے صفائی کرنا ہے جھوٹے برتن بھی مانجھنے ہیں
اپنے آقا کے ساتھ پھر ساری رات مرنا ہے
نظم
وہ
عتیق اللہ