EN हिंदी
وہ عرصہ جو دوری میں گزرا | شیح شیری
wo arsa jo duri mein guzra

نظم

وہ عرصہ جو دوری میں گزرا

رفیق سندیلوی

;

میں کیسے بتاؤں
وہ عرصہ جو دوری میں گزرا

حضوری میں گزرا
میں اس کی وضاحت نہیں کر سکوں گا

سر شام ہی
کوئی لا شکل کوت

مجھے اپنے نرغے میں رکھتی
مزا لیتی میرے نمک کا

کبھی میری شیرینی چکھتی
کبھی مجھ کو قطرے

کبھی مجھ کو ذرے میں تبدیل کرتی
کبھی مجھ کو ہیئت میں لاتی

کبھی میری ہیئت کو تحلیل کرتی
ادھورا سمجھتی

کبھی مجھ کو پورا سمجھتی
اسی گو مگو میں مجھے توڑ دیتی

مری ٹکڑیوں کو ملاتی
مجھے جوڑ دیتی

میں کیسے بتاؤں
کہ جو کیفیت مجھ پہ گزری

اساطیری ہرگز نہیں تھی
کسی دیو مالا سے

سا گا سے
جا تک کہانی سے

اس کا علاقہ نہیں تھا
کسی خواب کا یہ وقوعہ نہیں تھا

نہ یہ واہمہ تھا
جسے عقل تشکیل دیتی ہے

حیرت کا ورطہ
حصار نفس یا نظر کا کرشمہ

کوئی واردہ
پاس انفاس تنویم یا مسمریزم

کوئی حبس دم
جذب و مستی

کسی سنت‌ سادھو کی شکتی
کسی صوفی سالک کا الہام

سرسام
وحشت کی لے

وجد یا حال سی کوئی شے
ایک شیشے کے اندر کوئی چیز

براق پردے پہ رقصاں سی
فانوس گرداں سی

تصویری ہرگز نہیں تھی
اساطیری ہرگز نہیں تھی

میں کیسے بتاؤں
کہ جو کیفیت مجھ پہ گزری

میں اس کیفیت میں دوبارہ
کسی طور شرکت نہیں کر سکوں گا

وہ عرصہ جو دوری میں گزرا
حضوری میں گزرا

میں اس کی وضاحت نہیں کر سکوں گا