دھرتی سلگ رہی تھی آکاش جل رہا تھا
بے رنگ تھیں فضائیں موسم بدل رہا تھا
خوشبو مرے بدن کو گلزار کر رہی تھی
وہ کیف بے خودی میں کلیاں مسل رہا تھا
کروٹ بدل رہے تھے ارمان میرے دل کے
جب چاندنی کا منظر دریا میں ڈھل رہا تھا
جلووں کا رقص میں نے مستانہ وار دیکھا
بنت عنب کا جانے دل کیوں مچل رہا تھا
ایسا بھی ایک عالم گزرا خیالؔ مجھ پر
میں اس کی جستجو میں کانٹوں پہ چل رہا تھا
نظم
وصالیہ
رفیق خیال